اگر ہم اپنی زندگیوں کا گہری نظر سے مشاہدہ کریں تو یقیناً ہمیں یہ معلوم ہوگا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بیش بہا نعمتوں سے نوازا ہے جن کا شمار کرنا نا ممکن ہے چاہے وہ نعمت اولاد کی شکل میں ہو، رزق ہو، عافیت ہو یا صحت۔ اب انسان کے پاس اس کی دو ہی صورتیں ہیں ، یا تو وہ بے حسی کا مظاہرہ کر تے ہوئے اللہ کی نا شکری کرے یا پھر اس کا اعتراف کرتے ہوئے شکر بجا لائے اور یقیناً شکر بجا لانے میں انسان ہی کی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔
جیسا کہ اللہ سبحان و تعالیٰ سورہ لقمان آیت ۱۲ میں فرماتے ہیں کہ “اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی۔ کہ خدا کا شکر کرو۔ اور جو شخص شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لئے شکر کرتا ہے۔ اور جو ناشکری کرتا ہے تو خدا بھی بےپروا اور سزاوار حمد (وثنا) ہے”
اور اللہ سبحان تعالیٰ نے سورہ بقرہ آیت ۲۶۹ میں فرمایا کہ وہ جس کو چاہتا ہے دانائی بخشتا ہے۔ اور جس کو دانائی ملی بےشک اس کو بڑی نعمت ملی۔ اور نصیحت تو وہی لوگ قبول کرتے ہیں جو عقلمند ہیں
اور شکر تو یہ ہے کہ انسان اپنی تمام ظاہری اور باطنی نعمتوں کو پہچانے، اُن کا اعتراف کرے اور اپنی زندگی میں اپنے قول اور فعل سے اُس کا اظہار کرے۔
قول و فعل سے اظہار کا مطلب یہ ہے کہ ہم ذکر و تسبیحات کو اپنی زبان پر جاری رکھیں، لوگوں کو بھلائی کی تلقین کریں اور اُن کیلئے دعا کریں اور زندگی کے ہر موقع پر اللہ ہی سے رجوع کریں۔ مزید یہ کہ قرآن سیکھنے اور سکھانے کا اہتمام کریں۔ اسی طرح تمام فرائض عبادات میں پابندی، اولاد کی اسلامی تعلیمات کی بنیادوں پر تربیت اور اپنی صحت اور وقت کو دین کی ترویج کے کاموں میں لگانا ہی مکمل اطاعت اور شکر گزاری ہے۔